The Canons of Dordt
The First Head of Doctrine
Divine Election and Reprobation
Article 15
What peculiarly tends to illustrate and recommend to us the eternal and unmerited grace of election is the express testimony of sacred Scripture that not all, but some only, are elected, while others are passed by in the eternal decree; whom God, out of His sovereign, most just, irreprehensible, and unchangeable good pleasure, has decreed to leave in the common misery into which they have willfully plunged themselves, and not to bestow upon them saving faith and the grace of conversion; but, permitting them in His just judgment to follow their own ways, at last, for the declaration of His justice, to condemn and punish them forever, not only on account of their unbelief, but also for all their other sins. And this is the decree of reprobation, which by no means makes God the Author of sin (the very thought of which is blasphemy), but declares Him to be an awful, irreprehensible, and righteous Judge and Avenger thereof.
Article 16
Those in whom a living faith in Christ, an assured confidence of soul, peace of conscience, an earnest endeavor after filial obedience, a glorying in God through Christ, is not as yet strongly felt, and who nevertheless make use of the means which God has appointed for working these graces in us, ought not to be alarmed at the mention of reprobation, nor to rank themselves among the reprobate, but diligently to persevere in the use of means, and with ardent desires devoutly and humbly to wait for a season of richer grace. Much less cause to be terrified by the doctrine of reprobation have they who, though they seriously desire to be turned to God, to please Him only, and to be delivered from the body of death, cannot yet reach that measure of holiness and faith to which they aspire; since a merciful God has promised that He will not quench the smoking flax, nor break the bruised reed. But this doctrine is justly terrible to those who, regardless of God and of the Savior Jesus Christ, have wholly given themselves up to the cares of the world and the pleasures of the flesh, so long as they are not seriously converted to God.
Article 17
Since we are to judge of the will of God from His Word, which testifies that the children of believers are holy, not by nature, but in virtue of the covenant of grace, in which they together with the parents are comprehended, godly parents ought not to doubt the election and salvation of their children whom it pleases God to call out of this life in their infancy (Gen. 17:7; Acts 2:39; 1 Cor. 7:14).
Article 18
To those who murmur at the free grace of election and the just severity of reprobation we answer with the apostle: But indeed, O man, who are you to reply against God? (Rom. 9:20), and quote the language of our Savior: Is it not lawful for me to do what I wish with my own things? (Matt. 20:15). And therefore, with holy adoration of these mysteries, we exclaim in the words of the apostle: O the depth of the riches both of the wisdom and knowledge of God! How unsearchable are His judgments and His ways past finding out! For who has known the mind of the Lord? Or who has become His counselor? Or who has first given to Him and it shall be repaid to Him? For of Him and through Him and to Him are all things, to whom be glory forever. Amen. (Rom. 11:33–36).
اصولات (مجلس) ڈارٹ
کیننز آف ڈارٹ
عقیدے کا پہلا باب
الٰہی چناؤ اور ردّ
توضیح 15
جو چیز ہمیں چناؤ کی ابدی اور بلا استحقاق فضل کو خصوصاً واضح اور تجویز کرتی ہے، وہ بائبل مقدس کی صریح گواہی ہے کہ سب نہیں، بلکہ کچھ ہی برگزیدہ کئے گئے ہیں جبکہ دیگر کو ازلی اِرادہ میں چھوڑ دیا گیا ہے،جنہیں خدا نے اپنی خودمختاری، انتہائی انصاف، لاخطا، اور ناقابلِ تبدیل خوشنودی سے مقرر کیا ہے کہ وہ عام مصیبت میں چھوڑ دیے جائیں جس میں انہوں نے اپنی مرضی سے خود کو ڈالا ہے اور انہیں نجات بخش ایمان اور تبدیلی کے لئے فضل نہ بخشے۔ لیکن، اپنے انصاف کے مطابق، خدا نے انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلنے کی اجازت دی، تاکہ آخر کار وہ اپنے انصاف کو ظاہر کر ے اور انہیں ہمیشہ کے لئے سزا دے۔ یہ سزا نہ صرف ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہوگی، بلکہ ان کے دیگر تمام گناہوں کی بنا پر بھی۔ اور یہ ردّ کا ازلی اِرادہ ہے جو کسی بھی صورت خدا کو گناہ کا موجد نہیں بناتا (جس کا تصور بھی کفر ہے) بلکہ ایک غضب ناک، لاخطا، راست منصف اور انتقام لینے والا قرار دیتا ہے۔
توضیح 16
جو لوگ ابھی تک مسیح میں زندہ ایمان، روح کا مکمل اطمینان، ضمیر کا سکون اور خُدا کے ساتھ فرزندانہ فرماںبرداری کی مستعد کوشش اور مسیح کے ذریعے خدا کو جلال دینے کا احساس نہیں کر پائے اور جو اس کے باوجود خدا کی طرف سے دئے گئے وسائل کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ خُدا کی سب نعمتیں ان میں کام کریں، انہیں ردّ کے ذکر سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو ردّ کئے گئے لوگوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ، انہیں ان وسائل کے استعمال میں ثابت قدم رہنا چاہیے اور وہ پوری لگن اور عاجزی کے ساتھ مزید فضل کے لیے صبر سے انتظار کریں۔ وہ لوگ جو دل کی گہرائیوں سے خدا کی طرف رجوع کرنے، صرف اس کی خوشنودی حاصل کرنے اور موت کی حالت سے نجات پانے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن ابھی تک اس پاکیزگی اور ایمان کی اس سطح کو حاصل نہیں کرپائے جسے وہ اپنی منزل سمجھتے ہیں، انہیں عذاب کی تعلیم سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔چونکہ خدائے رحیم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کچلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور دھواں اٹھتے ہوئے سن کو نہ بجھائے گا۔ مگر یہ عقیدہ ان لوگوں کے لئے بہ طور انصاف خوفناک ہے جو خدا اور نجات دہندہ یسوع مسیح کو نظر انداز کرکے دنیا کی فکروں اور جسمانی لذتوں میں محو ہیں ، جب تک کہ وہ خدا کی طرف سنجیدگی سےرجوع نہ کرلیں۔
توضیح 17
چونکہ ہم خدا کی مرضی کا فیصلہ اس کے کلام سے کرتے ہیں، جو گواہی دیتا ہے کہ ایمانداروں کی اولاد پاک ہے، فطرت سے نہیں بلکہ فضل کے اس عہد کے ذریعے، جس میں وہ والدین کے ساتھ شامل ہیں، دیندار والدین کو اپنے بچوں کی برگزیدگی اور نجات پر شک نہیں کرنا چاہیے جنہیں خدا اپنی مرضی سے اس زندگی سے ان کی طفولیت میں بلانے کا ارادہ رکھتا ہے (پیدائش 7:17، اعمال 39:2، 1 کرنتھیوں 14:7)۔
توضیح 18
ان لوگوں کو جو چناؤ کے مفت فضل اور ردّ کے شدید انصاف پر بڑبڑاتے ہیں، ہم رسول کے ساتھ جواب دیتے ہیں، اے انسان بھلا تو کون ہے جو خدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ (رومیوں 20:9) اور اپنے نجات دہندہ یسوع مسیح کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں، کیا مجھے روا نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہوں سو کروں؟ (متی 15:20) اور اسی لئے، ان پاک بھیدوں کی تعریف کے ساتھ، ہم رسول کے الفاظ میں یہ پکار اٹھتے ہیں، واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں! خداوند کی عقل کو کس نے جانا؟ یا کون اس کا صلاح کار ہوا؟ یا کس نے پہلے اسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اسے دیا جائے؟ کیونکہ اسی کی طرف سے اور اسی کے وسیلہ سے اور اسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔ اس کی تمجید ابدتک ہوتی رہے۔ آمین (رومیوں 33:11-36)۔
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.