The following article, Divine Image-Bearers, is part of The Basics — An Introduction to Christian Doctrine by Dr. Kim Riddlebarger. It has been translated into Urdu and posted with permission.
الٰہی شبیہ کے حامل
آٹھویں زبور کے الفاظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے(کیونکہ تو نے اسے(انسان کو) خدا سے کُچھ ہی کمتر بنایا ہے اور جلال اور شوکت سے اسے تاج دار کرتا ہے۔زبور 5:8) اصلاحی عالم دِین کورنیلیئس وان ٹل نے یہ بیان کیا کہ چونکہ انسان خدا کی شبیہ پر بنایا گیا ہے، اس لئے آدم کو ہر اس پہلو میں خدا کی مانند تخلیق کیا گیا تھا جس میں ایک مخلوق خدا کی مانند ہو سکتی ہے۔ یہ بات سننے میں پہلے تو چونکا دینے والی لگتی ہےلیکن وان ٹل وضاحت کرتا ہے کہ چونکہ آدم مخلوق ہے، وہ ہمیشہ مخلوق ہی رہے گا اور کبھی بھی الہٰی حیثیت حاصل نہیں کرے گا۔ یہ ضروری ہے کہ مسیحی انسان کی تخلیق کے بارے میں بات کرتے وقت اس بنیادی حقیقت کو سمجھیں کہ خدا اپنی مخلوق سے بالکل منفرد ہے۔ وہ نہ تو دنیا کے ساتھ اور نا ہی اپنی مخلوقات کے ساتھ یکساں ہو سکتا ہے۔
بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا (پیدائش 26:1)۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدم نہ تو الٰہی شخصیت ہےاور نہ ہی کسی غیر واضح ابتدائی عمل کا نتیجہ ہے۔ خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا (پیدائش 7:2)۔ حوا بھی اس الٰہی شبیہ کی حامل ہے۔ انسان ہونے کا مطلب ہے کہ مرد یا عورت جسم اور روح دونوں میں خدا کی شبیہ کو قائم رکھیں۔ یہ دونوں روحانی (روح) اور مادی (جسم) عناصر کا ایک اتحاد ہیں۔ الٰہی شبیہ پر ہونے کا مطلب خدا کی اصل (آرکی ٹائپ) کا ایک نقش (ایکٹائپ) ہونا ہے۔
چونکہ تمام مرد اور عورتیں الٰہی شبیہ پر ہیں، ہم حقیقت میں خدا کی مانند ہیں اور ہم میں خدا کی تمام صفات مشترک موجود ہیں حالانکہ یہ صفات مخلوق میں محدود پیمانے پر ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے اور ہمیں مخلوقات کے مقابلے میں فکری، اخلاقی اور منطقی صلاحیتوں میں ممتاز کرتی ہے۔ آدم اور حوا کی تخلیق خدا کی کاریگری میں سب سے اعلیٰ ہے (پیدائش 28:1-31) جب خدا نے پہلے انسان آدم کو بہت اچھا قرار دیا۔
اس حقیقت کے اثرات کہ ہم الٰہی صورت کے حامل ہیں کثیر جہتی اور گہرے ہیں۔ پہلے، تخلیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ آدم انسانی نسل کا جسمانی اور مرکزی سر ہے۔ آدم پہلا انسان تھا اور تمام انسان اس کی نسل ہیں۔ یہ اس سوال کی طرف براہ راست اشارہ کرتا ہے کہ خدا کے سامنے لوگوں کی برابری اور نسل کی وحدت کیا ہے حالانکہ ہماری جسمانی شکلیں اور انفرادی شناختیں مختلف ہیں۔ دوسرے، ہماری نسل کے نمائندہ سربراہ کی حیثیت سے، آدم نے عدن میں آزمائش کے دوران میں، جب خدا نے آدم کو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے پھل نہ کھانے کا حکم دیا، خدا کے سامنے پوری انسانیت کی نمائندگی کی۔
آدم کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اپنی نسل کی طرف سے عمل کرے یعنی پوری انسانیت کی طرف سے۔ جو کچھ بھی آدم نے عدن میں کیا، وہ ہماری نمائندگی کرتا ہے۔ یہ حقیقت کئی اضافی تفکرات کو جنم دیتی ہے، جن میں یہ شامل ہے کہ آدم راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا ہوا اور خدا کے بارے میں حقیقی علم رکھتا تھا (ملاحظہ ہو، افسیوں 24:4 اور کلسیوں 10:3) جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدم خدا کے سامنے راستباز تھا جیسے کہ وہ پیدا ہوا۔ آدم محض معصوم نہ تھا بلکہ بغیر گناہ کے اور راستباز تھا جس میں خدا کے تمام احکام کی اطاعت کرنے اورتمام مخلوقات پر حکومت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے کی صلاحیت موجود تھی(پیدائش 28:1، اور خدا نے ان کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو)۔
آدم کی روحانی فطرت (مثلاً، یہ کہ روح جسم کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے) انسانی فطرت کے اس عنصر کی مزید عکاسی کرتی ہے۔ ہماری روحیں ناقابل دِید، ناقابل تقسیم اور غیر فانی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہم عظیم فکری صلاحیتوں کے ساتھ منطقی مخلوق کے طور پر پیدا ہوئے ہیں اور صحیح اور غلط کا تعین کرنے کی اخلاقی صلاحیت بھی رکھتے ہیں (رومیوں 12:2-16)۔ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ تمام مرد اور عورتیں مکاشفہ کو قبول کرنے کے قابل ہیں جو خدا تخلیقی نظام (عام مکاشفہ) اور اپنے کلام کے ذریعے (خاص مکاشفہ) دیتا ہے۔ اصلاحی علمائے دِین طویل عرصے سے دلیل دیتے رہے ہیں کہ ہمارے جسم روح کے آلات کے طور پر موزوں ہیں۔ اور یہ خاص طور پر جسم اور روح کی وحدت کے ذریعے ہے کہ الٰہی شبیہ سے منسوب صفات مشترک کا اظہار ہوتا ہے۔
آدم کو اس طرح کی حقیقی راستبازی، پاکیزگی اور علم رکھنے والے الٰہی صورت و شبیہ کے حامل کے طور پر بہ طور خدا کا نائب، تمام مخلوقات پر حکمرانی کرنے کا اختیار دیا گیا۔ نہ صرف خدا نے تمام چیزوں کو اچھا بنایا بلکہ اس نے اپنے منفرد صورت کے حامل کو دنیا اور اس کی تمام مخلوقات پر حکمرانی کی ذمہ داری سونپی۔ آدم کو خوراک کے لیے تمام پودے اور جانور دیے گئے اور اس سے کہا گیا کہ وہ ان جانوروں کے نام رکھے جن پر اسے حکمرانی سونپی گئی تھی (پیدائش 19:2)۔
یہی وجہ ہے کہ زبور نویس کہتا ہے کہ انسان فرشتوں سے کچھ ہی کم ہے (زبور 5:8)۔ آدم اور حوا کی تخلیق خدا کی کاریگری میں سب سے اعلیٰ ہے، نہ ہی یہ کوئی ضمنی خیال ہے اور نہ ہی کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ الٰہی شبیہ کے حامل ہونے کے ناطے، آدم اور حوا کو اپنے خالق کے نام پر زمین پر حکمرانی کرنے کیلئے بنایا گیا۔ پہلے انسان حقیقی راستبازی، پاکیزگی اور عرفان کے حامل تھے اور ان کا کام زمین پر خدا کے معبد باغ کی تعمیر کرنا تھا۔ اور چونکہ آدم اور حوا الٰہی صورت پر تھے ، وہ اس کام کیلئے بالکل موزوں تھے۔
مصنف: ڈاکٹر کِم رِڈلبارجر
مترجِم: ارسلان الحق
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.