The following article, God’s Attributes, is part of The Basics — An Introduction to Christian Doctrine by Dr. Kim Riddlebarger. It has been translated into Urdu and posted with permission.
خدا کی صفات
خدا کے بارے میں بہت کچھ اُس کی تخلیق کردہ دنیا سے جانا جا سکتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی دنیا سے تعلق رکھنے اور مشاہدہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا ازلی و ابدی، ہر چیز پر قادر اور مہربان ہے (رومیوں 20:1 سے موازنہ کریں)۔ تاہم، فطرت (عام مکاشفہ) کے ذریعے جو کچھ ہم خدا کے بارے میں سیکھتے ہیں، وہ ہمیشہ محدود ہوگا کیونکہ یہ مکاشفہ محدود مخلوقات کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ،یہ مکاشفہ انسانی گناہ کے باعث بگڑا ہوا ہے (رومیوں 21:1-25)۔ اس لئے گناہ گار انسان فطرت سے جو کچھ خدا کے بارے میں جانتے ہیں، وہ اکثر مسخ ہو جاتا ہے اورتمام طرح کی بت پرستی اور جھوٹے مذہب کی بنیاد بن جاتا ہے جس کا ذکر پولس رسول نے رومیوں 18:1-32 میں کیا ہے۔ جان کالون یہ کہنے میں بالکل حق بجانب تھا کہ گناہ گار مردوخواتین کے ذہن بت ساز کارخانے ہیں (مسیحی مذہب کے اصولات، کتاب اوّل، باب 11،پیراگراف 8)۔ اور اسی عام مکاشفہ کی وجہ سےجس کی سچائی کو ناراستی میں دبا دیا گیا ہے پوری نسل انسانی خدا کے سامنے مجرم ٹھہرتی ہے (رومیوں 20:1)۔
چونکہ گناہ گار انسانی تجسس اکثر خدا کی پوشیدہ ذات کے بارے میں قیاس آرائی کی طرف لے جاتا ہے، اس لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم خدا کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو دو کتابوں یعنی فطرت اور اپنے کلام کے ذریعے ظاہر نہ کرے۔ خدا کے کلام میں ہمیں بہت سی الٰہی صفات (یا کاملیتیں) ملتی ہیں جو خدا سے منسوب ہیں۔ لہذا، بجائے اس کے کہ ہم خدا کی پوشیدہ ذات کے بارے میں قیاس آرائی کریں (جو اکثر بت پرستی میں بدل جاتی ہے)، ہمیں خدا کی عبادت اور خدمت اسی طرح کرنی چاہیے جیسے وہ اپنے کلام کے ذریعے اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرتا ہے۔ ہم ان صفات کی تعریف اس طرح کر سکتے ہیں کہ یہ وہ کاملیتیں ہیں جو خدا کے ساتھ منسوب ہیں اور جو خدا کی تخلیق، پروردگاری اور مخلصی کے کاموں میں واضح ہیں۔
مسیحی علمائے دین نے طویل عرصے سے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان الٰہی کاملیتوں میں سے بعض صرف خدا کے لیے مخصوص ہیں جبکہ دیگر محدود پیمانے پر انسانیت کے ساتھ منسوب ہیں، کیونکہ ہم خدا کی صورت پر اس کی شبیہ کی مانند بنائے گئے ہیں۔ پہلی قسم کی صفات کو اکثر صفات غیر مشترک کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ یہ مخصوص صفات خدا اور انسان میں مشترک نہیں ہو سکتیں۔ دوسری کو صفات مشترک کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حقیقت میں انسانیت میں مشترک کی گئیں ہیں، لیکن ہمارے محدود ہونے کی وجہ سے ایک محدود پیمانے پر، اور زیادہ تر استعارہ کے ذریعے سمجھی جاتی ہیں (یعنی خدا ہمیں تخلیق اور اپنے کلام میں مثالیں دیتا ہے، جو ہمیں اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں)۔ جب ہم ان الٰہی خصوصیات پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ کاملیتیں ہیں جو صرف خدا ہی اپنی پوری وسعت اور کمال کے ساتھ رکھتا ہے، اور یہ ہم پر خدا کی الٰہی ذات کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہیں۔
جب ہم خدا کی صفات غیر مشترک کی بات کرتے ہیں تو ہم ایسی چیزوں کا تصور کر سکتے ہیں جیسے الٰہی بسیط (خدا ایک لا انتہا روح ہے اور مختلف اجزاء کا مجموعہ نہیں ہے، یوحنا 24:4 سے موازنہ کریں)۔ چونکہ خدا بسیط ہے، اس کی صفات اس کی ذات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ خدا موجود بالذات ہے یعنی وہ اپنی ذات سے باہر اپنے وجود، اپنے جلال یا اپنے مقاصد پر اثر انداز ہونے کے لئے کسی بھی شے پر انحصار نہیں کرتا۔ ہم خدا کو ازلی وابدی بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ اکیلا غیر تخلیق شدہ ہے جو بغیر ابتدا یا انتہا کے ہے۔ خدا جو ہے۔ خدا جو تھا۔ اور خدا جو ہمیشہ تک رہے گا۔
مسیحیوں نے ان صفات کو بیان کرنے کے لیے نفی کا طریقہ استعمال کیا ہے۔ یعنی، چونکہ ہم محدود اور گناہ گار مخلوق ہیں جو خدا کے مکاشفہ پر انحصار کرتے ہیں تاکہ اس کے بارے میں کچھ بھی حقیقی طور پر جان سکیں، یہ کہنا زیادہ آسان (اور محفوظ) ہے کہ خدا کیا نہیں ہے، بجائے اس کے کہ ہم یہ بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ایک لاانتہا اور ازلی وابدی خدا کیا ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جن سے ہر مسیحی واقف ہے۔
خدا کو لافانی کہا گیا ہے، کیونکہ وہ، کیونکہ وہ فانی نہیں ہے جیسا کہ ہم ہیں۔ ہم خدا کو ناقابل دِید اور پوشیدہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ (ہماری طرح نہیں) بلکہ ازحد پاک روح ہے اور انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا ایک ساتھ تمام تخلیق کو اپنی کاملیتوں سے بھر دیتا ہے۔ ہم خدا کو لاتبدیل کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات یا اپنے مقاصد میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اور پھر ہم خدا کو اعلیٰ و ارفع کہتے ہیں۔ اپنی مخلوقات کے برعکس، خدا اس دنیا سے آزاد ہے جسے اس نے بنایا ہے اور اس کی الٰہی ذات اور اس کے منصوبے بیرونی اثرات (جیسے کہ دکھ یا گناہ کے جذبات) کے تابع نہیں ہیں، حالانکہ پاک تثلیث کے اقانیم اس کی مخلوقات کے اعمال سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ حقیقت کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے کیونکہ اس کے بیٹے یسوع نے ہمارے گناہوں کیلئے دکھ اٹھایا اور مر گیا (1 یوحنا 10:4)، ہم روح القدس کو رنجیدہ کر سکتے ہیں (افسیوں 30:4)، اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ہیں۔
صفات مشترک وہ کاملیتیں ہیں جو ہم بطور مخلوق ایک محدود پیمانے پر رکھتے ہیں جبکہ خدا میں وہ لامحدود اور کامل ہیں۔ان میں علم کل، قدرت کاملہ، حاضر و ناظر ہونا شامل ہیں اور دیگر صفات بھی ہیں جیسے کہ مہربانی، محبت، رحم، قدوسیت، راستبازی اور غیرت۔
اگرچہ ہمارا علم محدود اور ناقص ہے (کیونکہ ہم محدود مخلوق ہیں)، خدا ہمہ دان ہے کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اگرچہ ہم مخلوق کی حیثیت سے طاقت اور آزادی کا استعمال کرتے ہیں لیکن صحیح معنوں میں صرف خدا کو ہی قادر مطلق کہا جا سکتا ہے اور اس لئے وہ تمام چیزوں پر حاکمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ہم زمان و مکان میں موجود ہوتے ہیں، خدا ان تمام زمانی اور مکانی حدود سےبلند وبالا ہے۔ صرف وہ ہی ہمہ جا ہے۔ مرد و خواتین خدا کی صورت پر اس کی شبیہ کی مانند بنائے کی وجہ سے مہربانی، محبت اور رحم وغیرہ جیسی صفات کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن خدا ان ہی صفات کو لامحدود پیمانے پر رکھتا ہے۔
چونکہ خدا نے اپنے کلام میں اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کیا ہے، اس لئے ہمیں اُس کی صفات کے بارے میں قیاس آرائی کرنے سے منع کیا گیا ہے( ایسی قیاس آرائی اکثر ہمیں ایک ایسا خدا بنانے پر مجبور کرتی ہے جو ہماری صورت پر ہوتا ہے، یعنی بت پرستی کی طرف لے جاتی ہے)۔ نہ ہی ہم اس کی صفات کو نظر انداز کر سکتے ہیں جب وہ ہماری گناہ گاری اور بہ طور مخلوق ہماری محدودیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ بلکہ ہمیں اس خدا کی عبادت اور پرستش کرنی چاہیے جس نے اپنے آپ کو ہمارے لئے اپنے کلام میں ظاہر کیا ہے اور جس کی صفات تخلیق، پروردگاری اورمخلصی کے کام میں صاف دکھائی دیتی ہیں۔
مصنف: ڈاکٹر کِم رِڈلبارجر
مترجِم: ارسلان الحق
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.