The following article, Sanctification, is part of The Basics — An Introduction to Christian Doctrine by Dr. Kim Riddlebarger. It has been translated into Urdu and posted with permission.
تقدیس
جب تک ہم یہ نہیں سمجھ لیتے کہ راستباز ٹھہرنا کیا ہے، ہم تقدیس کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔ تقدیس ایک ایسا عمل ہے جو زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اس کے ذریعے گناہ کی پرانی عادت (جسے ہم باطنی گناہ، نجاست کہتے ہیں) بتدریج کمزور ہوتی ہے اور نئی فطرت (جو ہمیں نوزادگی کی وجہ سے ملی ہے) بتدریج مضبوط ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کا وہی عمل جو ہمیں مسیح سے متحد کرتا ہے تاکہ اس کی خوبیاں ہم سے محسوب کی جائیں اور اس طرح وہ بنیاد فراہم کی جائے جس پر خدا ہمیں مجرم نہیں ٹھہراتا۔ جس میں ہماری گناہ کی خصلتیں کمزور ہوتی ہیں، دیندارانہ رغبتیں پروان چڑھتی ہیں اور ہم خدا کے صرف کچھ نہیں، بلکہ تمام احکامات کی تعمیل کرنا (تاہم، کمزوری سے) شروع کر دیتے ہیں۔ دیگر الفاظ میں کہا جائے تو ہر راستباز ٹھہرائے گئے گناہ گار کی تقدیس (پاک کرنے) کا عمل جاری ہے۔
جب ہم یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمارے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسی ایمان سے، جس سے ہم راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں، مسیح کی راستبازی ہماری ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مصلوب کئے گئے یسوع مسیح کی فرماںبرداری پر انحصار کرتے ہیں جو ہمیں اُس وقت ملتی ہے جب ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہم یسوع مسیح کی خوبیوں سے راستباز ٹھہرائے گئے ہیں جو ہم ایمان کے ذریعے حاصل کرتے ہیں (نہ کہ اپنے نیک اعمال کے ذریعے) ہمارے ضمیر خوف، دہشت اور ڈر سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ہم اس خوف کا شکار نہیں ہیں کہ جب ہم ناکام ہوں گے تو خدا ہمیں سزا دے گا لہذا، ہم اپنے آپ کو خدا کی شریعت کے احکام کی فرماںبرداری کرنے کیلئے آزاد پاتے ہیں، نہ زیادہ راستبازی حاصل کرنےکیلئے اور نہ ہی زیادہ مقدس بننے کیلئے۔ بلکہ، ہم خدا کے شریعت کی پیروی کرتے ہیں اور نیک اعمال سر انجام دیتے ہیں کیونکہ ہم پہلے ہی راستباز شمار کئے جاچکے ہیں۔ خدا کے سامنے ہماری ابدی حیثیت پہلے ہی یسوع مسیح کی فرماںبرداری کی وجہ سے طے ہو چکی ہے۔ یہی پاک ہونے کا جزوی مطلب ہے۔
بائبل مقدس میں تقدیس کے بارے میں کافی وسیع تعلیم پائی جاتی ہے۔ پولس کے مطابق، گناہ کے ساتھ کشمکش مسیحی زندگی کا ایک عام معمول ہے (گلتیوں 17:5، رومیوں 14:7-25)۔ درحقیقت، ہمارے درمیان سب سے زیادہ پاک وہ ہو سکتا ہے جو گناہ کے ساتھ سب سے زیادہ نبردآزما ہے۔ پولس نے گلتیوں 19:5-21 میں جسم کے پھل کی بات کی ہے جو گناہ کی علامات ہیں اور یہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں۔ دوسری طرف، روح کے پھل (آیت 22-23) ہماری زندگیوں میں خودبخود نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہ کے ساتھ کشمکش مسئلہ نہیں ہے بلکہ خدا کی باتوں سے متعلق بے حسی اور اپنی شخصی گناہوں کے بارے میں بے پروائی ہونا تشویشناک ہے۔
نیا انسان (جو گناہ میں مردہ تھا، لیکن اب مسیح میں زندہ ہے) اب گناہ کا غلام نہیں ہے. پرانی فطرت (جسم) کو مسیح کے ساتھ مصلوب کیا گیا ہے اور بپتسمہ میں اس کے ساتھ دفن کیا گیا ہے (رومیوں 1:6-7 سے موازنہ کریں). نیا انسان (نوزادگی یا نئی فطرت) مسیح کے جی اُٹھنے کی قدرت کے ذریعے زندہ ہوتا ہے اور جسم سے بالکل مختلف رجحان رکھتا ہے۔ نئی فطرت خدا کے وعدوں پر یقین رکھتی ہے، ایمان سے مسیح کو قبول کرتی ہے، گناہ سے نفرت کرتی ہے اور وہ خدا کی خوشنودی چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے انجیل کی منادی کے ذریعے بلایا جاتا ہے اور جو پھر مسیح پر ایمان لاتا ہے (روح القدس کے کام کے ذریعے) نہ صرف ایمان کے ذریعے راستباز ٹھہرایا گیا ہے بلکہ اس کی خواہشات اور محبتوں کا ایک نیا مجموعہ بھی ہے جو نئی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تقدیس اس ایک بار اور ہمیشہ کے اعلان کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہمیں راستباز ٹھہرایا گیا ہے۔ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صرف فضل کے ذریعے، صرف ایمان کے ذریعے اور صرف مسیح کی بنا پر راستباز ٹھہرایا ہوا ہے لیکن پھر وہ گناہ کے بارے میں بے حسی سے زندگی گزارنے لگتا ہے، بغیر اس کے خلاف جدوجہد کئے، تو اس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے۔ کوئی بھی راستباز ٹھہرایا گیا گناہ گار اپنے طرزِعمل کے بارے میں بے حس نہیں رہ سکتا اور نہ ہی وہ اپنے گناہوں میں اُسی طرح قائم رہ سکتا ہے جیسے وہ راستباز ٹھہرائے جانے سے پہلے تھا۔
نئی پیدایش میں ہم مسیح کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں اور گناہ کا زور ہم پر سے جاتا رہتا ہے ۔ لیکن باطنی گناہ یا نجاست (جسے علما گناہ کا طبعی میلان کہتے ہیں) مرتے دم تک ہم میں رہتا ہے۔ رومیوں 14:7-25 اور گلتیوں 17:5 اس حقیقت کے بارے میں بہت واضح ہیں۔ نئی فطرت کو ہر مسیحی کے تین دشمنوں کے خلاف جدوجہد کرنی ضرور ہے، غیر مسیحی طریقہ فکر و عمل، ہمارے گناہ آلود جسمانی خواہشات اور شیطان (خدا کے بارے میں جھوٹ اور غلط فہمیاں)۔ یہی وجہ ہے کہ گناہ کے ساتھ جدوجہد تصدیق اور نئی پیدایش کا لازمی پھل ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ جدوجہد بہت سے لوگوں کو اپنے خدا کے ساتھ تعلق پر سوال کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے ساتھ جدوجہد دراصل اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ خدا ہمارے اندر کام کر رہا ہے، ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رہا ہے اور اپنے پیارے بیٹے کا ہم شکل بنا رہا ہے۔
رومیوں 6:6 میں، پولس ہمارے بارے میں بات کرتا ہے کہ ہم پہلے گناہ کے غلام تھے۔ لیکن جب ہم اپنی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں تو ہم غلاموں کی طرح سوچنا اور عمل کرنا بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم آزاد مردوخواتین کی طرح زندگی گزاریں۔ یہ جدوجہد اس زندگی میں تمام گناہوں پر فتح نہیں دلائے گی جیسا کہ مسیحی کمال پرست (پرفیکشنسٹ) سکھاتے ہیں۔ لیکن گناہ کا زور ٹوٹ چکا ہے تاکہ تقدیس اور تبدیلی کا عمل لازمی طور پر شروع ہو سکے۔ پھر بھی، گناہ کا طبعی میلان (نجاست) ہم سے اس وقت تک جڑی رہے گی جب تک ہم مر نہ جائیں یا ہمارا خداوند واپس نہ آ جائے، جو بھی پہلے ہو۔
یہی وجہ ہے کہ آپ یہ دلیل نہیں دے سکتے، جیسا کہ بعض مسیحی کوشش کرتے ہیں، کہ کوئی شخص یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر سکتا ہےلیکن اسے بعد کے وقت تک اپنی زندگیوں پر خداوند نہیں بنا سکتا ( تنازعہ خداوندی نجات)۔ اگر آپ ایمان سے یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ مسیح کے ساتھ مصلوب ہو ئے ہیں ، مسیح کے ساتھ دفن ہو ئے ہیں اور اب مسیح کے ساتھ زندہ ہیں۔ نئے عہد نامے میں دو سطحی مسیحی زندگی جیسا کوئی تصور نہیں جس میں کچھ لوگ مسیح کو نجات دہندہ مانتے ہیں لیکن اسے خداوند نہیں مانتے، نہ ہی ایسے لوگ ہیں جو روح القدس سے معمور ہیں لیکن اُنہوں نے ابھی تک روح القدس کا بپتسمہ نہیں پایا اور نہ ہی ایسے لوگ ہیں جو نجات پا چکے ہیں لیکن ابھی تک اُن کی تقدیس نہیں ہوئی۔
اِس لئے جب ہم روزانہ گناہ کے اعتبار سے مر کر نئی زندگی سے اُٹھتے ہیں تو ہمیں گناہ کے ساتھ لڑنا پڑتا ہے۔ یہ جدوجہد ہمیں کچھ مشکلات میں ڈال سکتی ہے لیکن یہ ہماری تقدیس کی ایک واضح علامت ہے کہ ہم مسیح کے ہیں اور جس نے ہم میں نیک کام شروع کیا ہے وہ اُسے یسوع مسیح کے دِن تک پورا کردے گا (فلپیوں 6:1)۔ یہی پاک کئے جانے (تقدیس) کا مطلب ہے۔
مصنف: ڈاکٹر کِم رِڈلبارجر
مترجِم: ارسلان الحق
Discover more from Reformed Church of Pakistan
Subscribe to get the latest posts sent to your email.