The Savoy Declaration of 1658, drafted at the Savoy Palace in London by a group of Congregationalist ministers, is a revised version of the Westminster Confession of Faith (1646). This significant document outlines the principles of Congregationalist church governance and reflects the Puritan commitment to a reformed theology. It serves as a foundational text for various Baptist and Congregationalist traditions. This document has been translated into Urdu by Pastor Arslan Ul Haq of the Reformed Church of Pakistan.
ساوئی کا اقرار نامہ 1658ء میں لندن کے ساوئی پیلس میں کانگریشینلسٹ خدام نے تیار کیا۔ یہ ویسٹ منسٹر اقرارالایمان 1646ء کا ترمیم شدہ نسخہ ہے۔ یہ اہم دستاویز کانگریگیشنلسٹ یعنی جماعتی نظام کلیسیا کے اصولوں کا خاکہ پیش کرتی ہے اور اصلاحی علم الٰہی کے تعلق سے پیورٹینز کی وابستگی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ متفرق بپتسماوی اور جماعتی کلیسیاؤں کے لئے ایک بنیادی متن کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس دستاویز کا اردو زبان میں ترجمہ ریفارمڈ چرچ آف پاکستان (اصلاحی کلیسیائے پاکستان) کے پادری ارسلان الحق نے کیا ہے۔
An addendum to the Westminster Confession made by John Owen.
The difference between this confession (or declaration) and the Westminster Confession is this chapter. There are some other small revisions, but this is the major change. This chapter does not appear in the Westminster Confession.
Chapter 20
Of the Gospel, and of the Extent of the Grace Thereof
1. The covenant of works being broken by sin, and made unprofitable unto life, God was pleased to give unto the elect the promise of Christ, the seed of the woman, as the means of calling them, and begetting in them faith and repentance: in this promise the gospel, as to the substance of it, was revealed, and was therein effectual for the conversion and salvation of sinners.
2. This promise of Christ, and salvation by him, is revealed only in and by the Word of God; neither do the works of creation or providence, with the light of nature, make discovery of Christ, or of grace by him, so much as in a general or obscure way; much less that men destitute of the revelation of him by the promise or gospel, should be enabled thereby to attain saving faith or repentance.
3. The revelation of the gospel unto sinners, made in divers times, and by sundry parts, with the addition of promises and precepts for the obedience required therein, as to the nations and persons to whom it is granted, is merely of the sovereign will and good pleasure of God, not being annexed by virtue of any promise to the due improvement of men’s natural abilities, by virtue of common light received without it, which none ever did make or can so do. And therefore in all ages the preaching of the gospel hath been granted unto persons and nations, as to the extent or straitening of it, in great variety, according to the counsel of the will of God.
4. Although the gospel be the only outward means of revealing Christ and saving grace, and is as such abundantly sufficient thereunto; yet that men who are dead in trespasses, may be born again, quickened or regenerated, there is moreover necessary an effectual, irresistible work of the Holy Ghost upon the whole soul, for the producing in them a new spiritual life, without which no other means are sufficient for their conversion unto God.
Source: A Puritan’s Mind
ساوئی کا اقرار نامہ
ویسٹ منسٹر اقرارالایمان میں ڈاکٹر جان اوون کا اضافہ
اس اقرار الایمان (یا اقرارنامہ) اور ویسٹ منسٹر اقرارالایمان کے درمیان فرق یہ باب ہے۔ کچھ دیگر چھوٹی تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں لیکن یہ سب سے نمایاں تبدیلی ہے۔ یہ باب ویسٹ منسٹر اقرارالایمان میں موجود نہیں ہے۔
بیسواں باب
انجیل اور اس کے فضل کی وسعت کے بارے میں
الف۔ جب گناہ کے باعث اعمال کا عہد ٹوٹ گیا اور زندگی کیلئے بے اثر ہو گیا تو خدا نے اپنے برگزیدہ لوگوں کو مسیح کا وعدہ دیا، جو عورت کی نسل ہے، تاکہ ان کو اپنے پاس بلائے اور ان کے دلوں میں ایمان اور توبہ پیدا کرے۔ اس وعدے میں انجیل اپنے جوہر کے ساتھ ظاہر ہوئی اور یہی وعدہ گنہگاروں کی تبدیلی اور نجات کے لئے مؤثر ثابت ہوا۔
ب۔ مسیح کا یہ وعدہ اور اس کے ذریعے نجات کا پیغام صرف خدا کے کلام کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے. نہ تو تخلیق یا پروردگاری کے کام اور نہ فطرت کی روشنی، مسیح یا اس کے فضل کا کوئی عمومی یا مبہم اشارہ دیتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اس وعدے یا انجیل کے مکاشفہ سے محروم ہیں، فطرت کی روشنی یا قدرتی چیزوں کے ذریعے نجات بخش ایمان یا توبہ حاصل نہیں کر سکتے۔
ج۔ گناہ گاروں پر انجیل کا مکاشفہ مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے کیا گیا اور اس میں فرمانبرداری کے لئے وعدے اور احکام شامل کئے گئے۔ یہ انجیل قوموں اور افراد تک مکمل طور پر خدا کی حاکمانہ مرضی اور اس کی خوشنودی کے مطابق عطا کی جاتی ہے۔یہ کسی وعدے کے تحت انسان کی قدرتی صلاحیتوں کے بہتر استعمال یا بغیر انجیل کے ملی ہوئی عام بصیرت کی بنیاد پر نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص نہ کبھی ایسا کر سکا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے۔اسی لئے ہر دور میں انجیل کی منادی افراد اور قوموں کو عطا کی گئی ہے اور اس کی وسعت یا محدودیت خدا کی مصلحت کے مطابق مختلف پیمانوں پر ہوتی رہی ہے۔
د۔ اگرچہ انجیل ہی مسیح اور نجات بخش فضل کو ظاہر کرنے کا واحد ظاہری ذریعہ ہے اور یہ نجات کے لیے مکمل طور پر کافی ہےلیکن جو لوگ گناہوں میں مردہ ہیں، ان کے دوبارہ جی اٹھنے اور نئی پیدایش یا زندگی حاصل کرنے کےلئے روح القدس کا مؤثر اور ناقابل مزاحمت کام ضروری ہے۔ اس مؤثر کام کے بغیر کوئی دوسرا ذریعہ لوگوں کی حقیقی تبدیلی اور خدا کی طرف رجوع کے لیے کافی نہیں ہے۔
٭ ساوئی فرانس کا ایک علاقہ ہے۔